گھر کی عزت بھی کہتے ہو، پر خود ہی عزت دیتے بھی نہیں۔ گھر ک ’لکشمی‘ بھی کہتے ہو، اور اس کی ہی ’رکشہ‘ بھی نہیں کرتے۔ گھر کی امانت بھی کہتے ہو اور اس ہے امانت کو کھلی تجوری کا نام دے، اس میں ہے خایانت بھی کرتے ہو۔ عجب ہے نہ، ملک تو تِین ہیں، پر رویئے ایک سے ہی۔ کون ہے عورت؟ تمہارے گھر کی ذینت بھی ہے اور ذلالت کا نشانہ بھی۔ محافظ کہتے ہو اُسے اپنے گھر کے غرور کا۔ پر آنکھ کھولتی ہے وہ کسی گھر میں، تو شرم سے سر جھک جاتے ہیں ہر طرف۔ اس کی ہی کوک سے جانم لیتی ہیں تمہاری پیڑھیاں، پر اس کے ہی جنم پہ افسردہ بھی ہوتے ہو۔
بوجھ بھی کہتے ہو اُسے، اور لادتے اس کے ہی ننھے کندھوں پہ خود کا تمام۔ وہ تو پیدا ہے سمجھدار ہوتی ہے۔ ساری عمر سمجھنا اس کا ہے کام ۔ پر اُسے کس دن کوئی سمجھتا ہے آخِر۔ وہ خاموش رہتی ہے۔ اُف تک نہیں کرتی۔ تو پِھر وہ تمہارے معاشرے کی روایات کی المبردار ہے۔ تمہارے پیار اور توجہ کی تو تب بھی حق دار نہیں۔ پر جو اس نے کچھ کہنے کی ٹھان لی، تو اس کی آواز سے تمہارا معاشرا تھارتھارا اٹھتا ہے۔ دین۔و۔دنیا کی دوہائیاں دیتے ہو اُسے، کہ جو کہا تم نے کچھ تو مانگتی ہو اپنے حقوق سے کچھ زیادہ۔ پر اس کے کسی حق کی پرواہ تو تم کو نا تھی کبھی۔ تو پِھر اس کا حق کیا، خاموش تماش بین بن کے رہنے کا ہے، خود کے ہے تماشے پر؟
مرد جو کرے سو اس کی مرضی۔ عورت جو کرے تو وہ کیوں کر خودغرضی؟ مرد کرے تو وہ اس کے اعمال۔ عورت کرے تو بگاڑتی ہے وہ تمہارے معاشرے کا حال؟ یہ کیسا ترازو ہے، کےپہ پلڑا سدا کا اک طرف کا ہے بھری ۔ حقوق کے نام پہ، موند لے وہ آنکھیں، بس یہی ہے آرزو تمہاری؟ اس کے تن کی حفاظت ہے دینی فریضہ، یہ بھی کہتے ہو۔ نگاہ ڈالتے اس پر خود ہی تو ہو۔ یہ بھی کہو گے کہ اس کو رکھنا محفوظ ہے مردوں کا کام؟ پر آخِر کس سے، تم جیسے مردوں سے جو پھرتے ہیں سر عام؟ تو یہ کہو نہ کہ تم دو گے تحافظ اپنے گھر کی عورتوں کو دوسروں کے خلاف۔ اور وہ دے کر تم سے، کریں گے انصاف ۔ پر بھیڑیے تو تم بھی ہو، اور وہ بھی۔ اس کے تن اور من پہ اپنا حق تو دونوں ہی ہو جاتاتے۔ وہ لوٹیں گے اس کی شرم، تو تم گھر میں کرو گے اس کی زندگی درہم بھرم۔
حیادار ہونی چاہیے عورت۔ پر اس کی حیا پر ہاتھ ڈالنے والے بھی تم ہو۔ باقردار ہونی چاہیے عورت۔ پر اس کے قردار کو ساوالیا نشان بنانے والے بھی تم ہو۔ پاک دامن ہونی چاہیے عورت۔ پر اس کے دامن پہ داغ لگانے والے بھی تم ہو۔ بہن بیٹی گھر کی عزت ہیں۔ پر کسی اور کے گھر کی عزت کو مٹی میں ملانے بھی تم ہو۔ سب کچھ ہونی چاہیے ’یہ عورت‘، پر خود کے بارے میں خیال کیا ہے؟ کہتے ہو حیا ہے اس کا زیور۔ پر اِس ہی زیور کو گلے کا پھندا بنا کر اتارتے بھی تم ہے تو ہو۔ لگاتا ہو گا جو کوئی اور اس کی چنری میں داغ۔ تو تم تو گھر میں ہے لگا لیتے ہو آگ۔ اور قصہ مختصرناً یہ ہے کہ الٹ دو ان ہی اعمال کو، تو پاؤ گے کسی اور کے گھر کے حال کو۔ وہاں کی عورت کی عزت کے دشمن ہو تم۔ باقی تو اس گھر کے ہے مرد ہیں کافی، سہتی وہ وہاں ان کے ہاتھ بھی ناانصافی۔ سچ تو یہ ہے کہ گر تم سب یوں نہ ہو، تو یہ نہ ہو اس کا انجام۔ پر پِھر بھی کہتے رہو گے کہ انہیں محفوظ رکھنا ہے ہمارا ہی کام۔ محافظ بھی تم، حفاظت بھی تمہارے خلاف۔ بتاؤ پِھر کیا ہے اِس سوچ میں راتی بھر بھی انصاف۔
اس کے تن پہ لباس کتنا ہے، اِس سے تم اس کے قردار کو کرتے ہو منسلک۔ پر وہ جو کرے تمہاری نگاہ کو تمہارے قردار سے، تو کہتے ہو نگاہیں تو اُٹھائیں گی جہاں دو گی موقع دیدار کا۔ کیا موقع دیتی ہے وہ جو ڈاھنپتی ہے حجاب میں؟ کیا موقع دیتی ہے وہ جو ننھی پری حیا کا لفظ بھی اب تک نہ سیکھی؟ پر عزت تو یکساں لوٹ لیتے ہو۔ اور پِھر ذلیل بھی کرتے کو کے تم عزت دار نہیں۔
تاوایفون سے بھرے ہیں میح خانے۔ بسنے والی کی وہاں ہے اپنی اپنی کہانی۔ سوداگر ہے وہ جو اپنے وجود کی، تو بتاؤ اُسے اس مقام تک لایا کون؟ جب لٹی تھی پہلی بار، تو کیا دی تھی تم نے اس پہ چادر؟ کیا پِھر سے ایک عام انسان مانا تھا اُسے؟ اس کی عزت لٹی بھی تو تم میں سے ہی کسی کے ہاتھوں سے۔ تو بتاؤ کیا جاتاتے ہو اب ان باتوں سے؟ چادر کھینچے بھی مرد، کھچی چادر پہ انگلی اٹھایے بھی مرد۔ ذلیل۔و۔رسواء کر کے اتنا رکھ دیا، کہ اب بسر کرنے کو زندگی، یہی ذریعہ کار۔و۔بار ہے اس کا۔ شرم جو تم میں نہیں جو فائدہ آٹھا تے ہو۔ تو اس کی شرم پہ آٹھا تے ہو کیوں کر کوئی انگلی؟ بے عزت بھی خود کی، اب جو ہے ہی نہیں تو کرے کس کی وہ کوئی رکھوالی؟
نہیں کرتی میں انکار کے دو زہن حقوق کو ایک ہی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ نہیں کرتی میں انکار کے ہر انسان کا ہر فیصلہ نہ درست۔ پر جب تم کو ہے اِس کی آزادی، کے اپنے اعمال کے جاوابدار ہو خود۔ تو مجھے کیوں بیڑیوں میں رکھتے ہو ؟ مجھے کیوں بھیڑیوں میں رکھتے ہو؟ جو دین کی کرتے ہو گفتگو، تو بس یہ سمجھا دو۔ کہ مومانیت اور حدایات تو بہت سی چیزوں کی ہیں، نہیں کرتی میں کسی سے بھی اختلاف۔ پر مرد خدا کو حساب دیں گے، یہ مان کر ہم کبھی کچھ نہ کہیں۔ تو عورت کیوں کر ہر روز حساب دے مردوں کو اپنے اعمال کا؟ نہ مرد خدا ہیں، نہ عورت ان کو جواب دہ۔ شرک کی بھی تو اِس ہے دین میں مناحی ہے۔
میں کیوں کر ہوں تمہاری عزت کی محافظ، جب تم تو صرف میری بھی حیفازوت نہیں کر سکتے؟ اور مجھ کو تمہارے تحفظ کی بھی ضرورت نہیں، تم سے ہی تحفظ کی تو ضرورت ہے آخر۔ میں ہوں کیوں تمہارے سوالوں کا نشانہ، جب غلط نگھاون کا نشانہ بھی ہوں میں۔ مجھ سے کس چیز کی کرتے ہو توقع، جب میرے وجود کو پنجرے کی ذینت بنا کے رکھتے ہو تم؟
کوئی دو عورتیں ایک سی نہیں۔ میری اس بہن کو بھی جینے دو، جس کی دُنیا اس کا گھر ہے۔ میری اس بہن کو بھی جینے دو، جو دنیا میں خود بنا چاہتی اک گھر ہے۔ میری اس بیٹی کو بھی جینے دو، جو خوش ہے اس تھوڑے میں۔ میری اس بیٹی کو بھی جینے دو، جو سوار ہونا چاہتی ہے زندگی کی دھڑ کہ گھوڑے پہ۔
دین۔و۔دُنیا کی دہائی کس منہ سے دیتے ہو، جب دینی حقوق تک سے رکھتے ہو محروم۔ میرا خدا ہے اب بھی، وہ کرے گا مُجھ سے سوال، جو ڈگمگائے قدم، کیے کوئی غلط اعمال۔ پر پِھر مت دو دین اور معاشرے کا واسطہ تم، جب میرے حقوق کے مدے کو کرتے ہو یوں گم۔ کہ اٹھاؤں میں اک آواز، تو کہتے ہو نہیں دیتا تمہیں یہ زیب، میرے حقوق کی پامالی بھی ہے اک فریب۔ میرے کچھ کہنے سے گھر کیوں ٹوٹے گا کوئی، بتاؤ ایسی کیا بات ہے تم نے چھپائی ہوئی؟ میری بیٹی کو، میری بہن کو، مت دکھاؤ یہ راستہ، دے کر تم خدا رسول کا واسطہ۔ جب خود خدا کو تم بھول جاتے ہو، نہ یاد آتی ہے تمہیں پِھر اس کی خدائی۔ جب دم گھوٹتے ہو، بن باپ، میاں اور بھائی ۔
حدود تو میرے بھی ہَیں، اور ہَیں تمہارے۔ پِھر کیوں تم سے تو خدا پوچھے گا، اور مُجھ سے جواب مانگے سارے؟ کن حدود کی بات کرتے ہو اور کس منہ سے؟ جب تمہاری ناانصافی کی ہے کوئی حد نہیں۔ عورَت کی جگہ سکھاتے اور دکھاتے پھرتے ہو اُسے۔ جب خدا نے تو بلند خود رکھا ہے اس کا درجہ۔ ارے دین کی اک آدھی ادھوری کہانی مت تم سنانا اب، یہ جو ہو رہا ہے نہ، سب ہے اس ہی کا سبب۔ میں تو مانون اس خدا کو جس نے مجھے بنایا۔ اور خود ہے بتایا، میرا فرض تو میرا حق کیا ۔ تم بتاؤ اِس ناانصافی کو جائز، کہتا ہے کب وہ رب؟
میری خاموشی کو، میری خوشی مت سمجھو۔ میں کبھی خاموش رہتی ہوں، کبھی کی جاتی۔ میری آسایشوں کو میری آزادی مت سمجھو، لباس تو کٹ پتلیوں کے بھی ہوتے ہَیں دیدا زیب۔ میں تو تمہارے اس ہی معاشرے کا ہوں حصہ، جہاں گھر کی بات گھر میں رکھنے کا رواج ہے۔ غلط تو رتی بھر نہیں، پر اس کے غلط اِسْتِعْمال کا کوئی نہیں علاج۔ سو میرے زخم جو تم کو نہ دکھئیں، تو مت کہو تکلیف ہے ہی نہیں۔ یہاں داستان ظلم انگنت، ہَیں اب بھی ان کہی۔
کہتے ہو جو لڑنی ہے حقوق کی جنگ، تو خاموش رہ کر آگے بڑهو۔ میں تو اٹھا لوں اپنا قدم ۔ پر جسے قید کر رکھتے ہو سونے کے پنجرے میں ، کیا کرے وہ؟ اس کے پاس تو نہ آزاد ہونے کا راستہ ہے، نہ اٹھنے دیتے ہو اس کی آواز۔ تم کو ہی خدا رسول کا واسطہ ہے، بیان کرنے دو مجھے معاشرے کے وہ راز۔ اس بہن کے اور میرے، کچھ مسئلے ایک سے، کچھ ہَیں مختلف۔ پر نہ اتنی خود غرض بن کے رہ سکون گی، کہ کروں صرف اپنی ہی بات، اٹھاؤں اکیلے قدم۔ میں تو خاموش رہ کر بھی حالات بَدَل لوں اپنے، پر اُسے کہاں ملے گا، خاموشی میں کوئی منصف۔
میرے الفاظ اور میرے انداز پہ غور تھوڑا کم فرماؤ۔ میں جو چیخ رہی ہوں تو یہ بتاؤ۔ میں بھی ہوں انسان اور خدا نے تو حاقوق-العباد کو خود کے حقوق پہ بھی ترجیح دی ہے۔ تم کیسے کرو گے اس کا سامنہ، جب تم نے تو اس کی مخلوق کے حق کی تو صرف، پامالی ہی کی ہے۔ مومنہ میں نہیں تو تم کونسا مومن ہو، مُجھ پہ انگلی اُٹھانے سے پَہْلے، خود کا حال تو دیکھ لو۔
No comments:
Post a Comment